کچھ محرومیاں دور ہوں
میری پہلی شادی ہے اور شوہر کی دوسری۔ ان کی پہلی بیوی کو کینسر ہو گیا تھا۔ دو بچے ہیں جو اب میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ میری ساس انہیں اپنے پاس لے جانا چاہتی ہیں لیکن شوہر کی خواہش ہے وہ اسی گھر میں رہیں۔ ان کی عمریں پانچ اور سات سال ہیں۔ بہت ہی شریر ہیں‘ مجھے بہت غصہ آتا ہے مگر کچھ نہیںکہہ سکتی۔ میرے ہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں‘ یہ سوچ کر اور بھی دکھ ہوتا ہے۔ میری مایوسی کے سبب سسرال اور میکے میں سب ہی پریشان ہیں‘ میرے ساتھ والدہ بھی روتی ہیں۔ (اسمائ.... ملتان)
جواب:کس قدر ہی پرآشوب آزمائشی دور ہو انسان کو گھبرانا اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جن حالات کو تبدیل نہ کیا جا سکے انہیں مثبت طرز فکر سے قبول کر لینا بہتر عمل ہے۔ آپ مایوسی کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ والدہ بھی غمگین ہو گئی ہیں۔ وہ بچے جن کی ماں نہیں ہے اور آپ کو ان کی پرورش کا موقع ملا ہے توآپ ان سے پیار کریں‘ ان کی خوشیوں میں خوش ہونا سیکھیں‘ انہیں اچھی تعلیم دیں۔ ان کی اچھی تربیت کریں۔ یہ آپ کا کہا مانیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں‘ انہیں انعامات دیں۔ ان کی خوشیاں منائیں۔ آپ کو وہ سب حاصل ہو جائے گا جس کی آپ کو خواہش ہے۔
سب ہی چپ ہیں
میرے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ایک بہن ہے وہ بھی شہر سے دور ہے۔ میں بھائی اور بھابی کے ساتھ رہتی ہوں۔ بھابی اپنے رشتہ داروں میں میری شادی کروا رہی ہیں۔ لڑکا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے اور اگر میں عمر کا خیال نہ کروں تو وہ مالی طور پر بھی مستحکم نہیں۔ تعلیم مجھ سے بہت کم ہے۔ بھابی بار بار کہتی ہیں کہ میری شادی کے بعد وہ فرض سے سبکدوش ہو جائیں گی۔ عزیز رشتہ دار آتے ہیں مگر سب ہی چپ ہیں۔ کسی کو بھی میرے احساسات کی پروا نہیں۔ محلے میں ایک لڑکا ہے جو میرے ساتھ سکول میں پڑھتا تھا‘ آج کل ملک سے باہر ہے۔ اگلے ماہ آنے والا ہے۔ بھابی اس سے بہت چڑتی ہیں۔ وہ خوش شکل اور اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ بھابی اس کے آنے سے پہلے ہی کہیں میری شادی نہ کر دیں۔ (مہرین.... کراچی)
جواب: زندگی کے فیصلے زبردستی نہیں کرنے چاہیے۔ اس مشکل وقت میں آپ ہمت سے کام لیں اور اپنی بہن کو موجودہ حالات کے بارے میں بتا دیں‘ اپنی رائے کا بھی اظہار کیجئے گا۔ وہ آپ کی مدد آسانی سے کر سکتی ہیں اور بھائی کو بھی سمجھا سکتی ہیں کہ جو رشتہ انہوں نے پسند کیا ہے وہ ٹھیک نہیں۔
کچھ پتا نہیں چلتا
سوال : میرا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گا ر ی ہے ۔ عرصہ تک تلا شِ معا ش میں سر گر داں رہنے کے بعد زندگی کے اتنے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد طبیعت یکسر بدل گئی ہے ۔ سخت چڑ چڑا ہو گیا ہو ں ۔ بات بات پر غصہ آجا تاہے ۔ بعض اوقات تو ذہن ما وف ہو جا تاہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ میرے سامنے ما ں کھڑی ہے یا با پ۔ بعد میں سخت ندامت اٹھا نی پڑتی ہے۔ مایو سی کے گہرے اندھیرو ں میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ۔ اب تک خیال تھا خدا نیک لو گو ں کی بڑی جلدی سنتا اور ان کی مدد کر تاہے ۔مگر میرا تجربہ ا س کے بر عکس ہے ۔مہربانی کرکے میری اس پریشانی میں رہنمائی کریں۔(انور راہی ۔ فیصل آبا د)
جوا ب : آپ کا خط پڑھ کر بڑا دکھ ہو ا۔ بے روز گاری نے اکثر نوجوانوں کومایو سی کے غارمیںدھکیل دیا ہے۔ یہ تنہا آپ کا معاملہ نہیں بلکہ ہر اس پڑھے لکھے نو جو ان کا ہے جو تعلیم محض ملازمت کے لیے حاصل کر تاہے ۔ عزیزمن ! ایسے وقت میں گھبرانے اور دل چھوڑ جانے سے کچھ نہیں بنتا۔ تعلیم کی ناقدری آپ کے سامنے ہے ۔ ایف اے ، بی اے کو آج کل کون پوچھتا ہے ؟ میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ بی ۔ اے کا امتحان تو دے لیں ، مگر بی اے کرنے کے بعد کسی ملا زمت کی تلاش میں سر گر داں رہنے کی بجائے کوئی ہنر سیکھیں ۔ ہنر سیکھنا کوئی عیب نہیں ۔ صرف یہی ایک ذریعہ ہے جس سے آپ والدین کی خواہشات بھی پوری کر سکتے ہیں اور اپنے آپ کو صحیح مصرف میں بھی لا سکتے ہیں۔
آپ نے درست کہا ہے کہ بے روزگا ری سے مزاج چڑ چڑا ہو جاتا ہے اور انسان با ت با ت پر غصہ نکا لتا رہتا ہے ۔ اس کا علا ج یہی ہے کہ کسی ہنر میں کما ل حاصل کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے ۔ آپ کا شہر بڑا صنعتی شہر ہے ۔ بس معمولی سی کو شش سے ہر طر ح کا کام سیکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھیے نا ، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ بی ۔ اے پاس ہو تے ہیں، ہر ایک کے لیے ملا زمت کہا ں سے آئے ؟ لو گ یونہی ہاتھ کے کام سے گھبراتے ہیں ورنہ اہل ہنر تو اس قدر رزقِ حلال حاصل کر رہے ہیں جو ملا زمت پیشہ افراد کو بھی میسر نہیں۔
اگر آپ بی اے اچھے نمبرو ں میں پا س کر لیں تو اپنے ہی شہر میں ٹریننگ کالج میں بی ایڈ میںداخلہ لے لیجئے ۔ اس سے فارغ ہونے پر آپ کو یقینا کسی نہ کسی سکول میں جگہ مل جائے گی۔ گھبرائیں نہیں ، آپ کے صبر کا امتحان ہو رہا ہے ، امید ہے آپ اس امتحان میں پورا اتریں گے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں